غریب اور ضعیف امر ہے،کیونکہ ہر وہ چیز جس کی مشروعیت شرعی دلائل سے ثابت نہ ہو کسی مسلمان کے لیے اللہ کے دین میں اس کا ایجاد کرنا جائز نہیں،چاہے وہ انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی طور پر،خفیہ طور پر ہو یا علانیہ طور پر،کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے کہ
((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ۔))[1]
’’جس کسی نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
اور اس کے علاوہ دیگر دلائل ہیں جو بدعت کے انکار اور اس سے بچنے پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘[2]
ائمہ کرام امام ابن وضاح،امام طرطوشی،امام عبد الرحمن بن اسماعیل المعروف بہ ابوشامہ،امام حافظ ابن رجب،اور امام ابوالعصر عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کے سابقہ تمام اقوال سے یہ بات واضح اور آشکارا ہوجاتی ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب کو نماز یا کسی بھی قسم کی غیر شرعی عبادت کے لیے خاص کرنا بدعت ہے،کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے ایسا عمل کیا ہے۔
(۵) تبرک (حصول برکت):
’’التبرک‘‘ کے معنی حصول برکت (برکت طلبی) کے ہیں اور ’’التبرک بالشیء‘‘ کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کے واسطے سے برکت حاصل کرنا۔[3]
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر طرح کی خیر و برکت اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے،تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض مخلوقات کو اپنی مشیت کے مطابق فضل و برکت سے خاص فرمایا ہے۔
|