اصل میں برکت کے معنی جماؤ اور لزوم کے ہیں اور کبھی کبھی بڑھوتری اور اضافہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے،’’التبرک‘‘ کے معنی دعا کے ہیں،عربی زبان میں کہا جاتا ہے ’’برّک علیہ‘‘ یعنی کسی کے لیے برکت کی دعا کی اور اسی طرح کہا جاتا ہے ’’بارک اللّٰہ الشیء‘‘ اور ’’بارک اللّٰہ فیہ‘‘ یا ’’بارک علیہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز میں برکت رکھ دی اور ’’تبارک‘‘ صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی شان ہے،وہی اس سے متصف ہوسکتا ہے،لہٰذا کسی اور کے لیے ’’تبارک فلانٌ‘‘ نہیں کہا جاسکتا،کیونکہ ’’تبارک‘‘ کے معنی باعظمت ہونے کے ہیں اور یہ ایک ایسا وصف ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے شایان شان ہے۔
’’الیمن‘‘ کے معنی بھی برکت ہی کے ہوتے ہیں،لہٰذا ’’برکۃ‘‘ اور ’’یُمْن‘‘ دونوں مترادف الفاظ ہیں۔
الفاظ قرآن کے معانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ’’برکت‘‘ کئی معانی میں استعمال ہوا ہے،چند معانی درج ذیل ہیں :
۱: پیہم خیر و بھلائی۔
۲: خیر و بھلائی کی کثرت اور بتدریج اس میں اضافہ و بڑھوتری۔
۳: لفظ ’’تبارک‘‘ سے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات متصف کی جاسکتی ہے اور اس لفظ کی اضافت بھی صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کی طرف ہوسکتی ہے۔
علامہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’اللہ تبارک و تعالیٰ کے ’’تبارک‘‘ کا مفہوم (سے مراد) اللہ تعالیٰ کا جود و کرم،خیر و بھلائی کی فراوانی،بزرگی و برتری،عظمت و تقدس،ہمہ قسم کی خیر و برکت کی آمد کا مرجع اور حسب منشا برکات کا نزول وغیرہ ہے،قرآن کریم کے معانی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ’’تبارک‘‘ متعدد معانی پر دلالت کرتا ہے۔[1]
|