سے کسی سے اپنے سابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعلق سے ایسی چیز کا صدور نہ ہوا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد امت میں سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل کسی کو نہ چھوڑا،چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے خلیفہ تھے،لیکن آپ کے ساتھ ایسا کوئی عمل نہیں کیا گیا اور نہ ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد امت میں سب سے افضل ہیں،پھر اسی طرح حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہ امت میں ان سے افضل کوئی نہیں،ان تمام چیزوں کے باوجود ان میں سے کسی ایک سے بھی صحیح معروف سند سے ثابت نہیں کہ کسی تبرک حاصل کرنے والے نے ان تمام صورتوں میں سے کسی بھی صورت میں تبرک حاصل کیا ہو۔[1]
اس میں کوئی شک نہیں کہ علماء کرام کے علم سے فائدہ اٹھانا،ان کے وعظ و نصیحت اور دعاؤں کو سننا اور ان کے ساتھ رہ کر مجالس ذکر کی فضیلت حاصل کرنا انتہائی خیر و برکت اور نہایت مفید شے ہے‘ لیکن ان کی ذات و شخصیات سے تبرک کا حصول نہیں کیا جائے گا۔بلکہ صرف ان کے صحیح علم پر عمل کیا جائے گا اور ان میں جو اہل سنت و جماعت کے منہج پر عامل ہوں اور ان کی اقتدا اور پیروی کی جائے گی۔[2]
(۳) زم زم نوشی سے تبرک کا حصول:
کیونکہ آب زم زم روئے زمین کا سب سے افضل پانی ہے،اسے پینے سے سیرابی حاصل ہوتی ہے اور وہ کھانے کے قائم مقام ہوتا ہے اور اسے نیک نیتی کے ساتھ نوش کرنے سے بیماریوں سے شفایابی حاصل ہوتی ہے،کیونکہ آبِ زم زم جس مقصد کے لیے نوش کیا جائے اس سے اس مقصد کی تکمیل ہوتی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آبِ زم زم کے بارے میں فرمایا:
|