اور جو لوگوں کو فرائض و سنن کی تعلیم دینے کے انتہائی حریص اور خواہش مند تھے،لیکن اس کے باوجود ان سے کہیں منقول نہیں کہ ان میں سے کسی ایک نے اس نماز کا تذکرہ کیا ہو،یا اپنی کتاب میں لکھا ہو یا اپنی مجلس میں اس سے کوئی تعرض کیا ہو،جبکہ عرف و عادت میں ایسا ہونا محال ہے کہ اس نماز کو سنت کی حیثیت حاصل ہو اور ان ائمہ کی نگاہِ بصیرت سے اوجھل رہ جائے۔
۲: یہ نماز درج ذیل تین وجوہات کے سبب شریعت کے مخالف ہے:
پہلی وجہ:....یہ نماز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے مخالف ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَخُصُّوا لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ بِقِیَامٍ مِنْ بَیْنِ اللَّیَالِیْ،وَلَا تَخُصُّوْا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ بِصِیَامِ مِنْ بَیْنِ الْأَیَّامِ،إِلَّا أَنْ یَکُوْنَ فِيْ صَوْمٍ یَصُوْمُہٗ أَحَدُکُمْ۔))[1]
’’راتوں میں سے جمعہ کی رات کو عبادت کے لیے خاص نہ کرو اور نہ ہی دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزہ رکھنے کے لیے خاص کرو،ہاں اگر تم میں سے کوئی پہلے سے روزہ رکھ رہا ہو اور اس دن جمعہ پڑ جائے (تو کوئی بات نہیں )۔‘‘
لہٰذا اس حدیث کی بنیاد پر یہ جائز نہیں کہ جمعہ کی رات کو دیگر راتوں کے بالمقابل کسی اضافی نماز کے لیے خاص کیا جائے۔[2]
یہ حدیث رجب کے پہلے جمعہ کی شب کو اور اس کے علاوہ کسی بھی شب کو عام ہے۔
دوسری وجہ:....رجب اور شعبان کی دونوں نمازیں بدعت ہیں،کیونکہ ان دونوں نمازوں کے بارے میں حدیثیں وضع کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ کا بہتان لگایا
|