|
بِالصَّوْمِ،فَاِنَّہُ لَہُ وَجَائٌ۔)) [1]
’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جسے شادی کی طاقت ہو اسے چاہیے کہ شادی کر لے کیونکہ وہ نگاہوں کو زیادہ پست کرنے والی اور شرم گاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے،اور جسے شادی کی استطاعت نہ ہو،وہ روزہ رکھے،کیونکہ روزہ اس کے لئے گناہوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔‘‘
اسی طرح اگر حرج والے کاموں سے بچنے کے لئے غیر حرج والے کاموں کو بھی ترک کر دے تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں،کیونکہ یہ حرام میں وقوع کے خوف سے اور دین وآبرو کی حفاظت کی خاطر،ان شبہات سے اجتناب کے قبیل سے ہے۔
اور اگر ترکِ عمل کسی اور غرض کے لئے ہو تو بھی دو صورتوں سے خالی نہیں،یا تو دینی نقطہ نظر سے ہوگا یا غیر دینی نقطہ نظر سے،اب اگر غیر دینی نقطہ نظر سے یونہی اس کا تارک ہے،تو اس کو حرام سمجھنا یا قصداً انجام نہ دینا لغو اور عبث کام ہے،لیکن اس صورت میں اسے بدعت کی عمومی تعریف میں شامل نہ ہونے کے سبب بدعت نہ کہا جائے گا،البتہ ان لوگوں کی تعریف کے مطابق ضرور کہا جائے گا جو عادات میں بھی بدعت کے قائل ہیں،البتہ پہلی تعریف کی روشنی میں یہ بدعت نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ ایک شے کو ترک کرنے یا اس کی حرمت کا عقیدہ رکھنے کے سبب وہ شریعت کی خلاف ورزی کرنے والا شمار ہوگا اور گناہ کا مستحق قرار پائے گا اور خلاف ورزی کا گناہ عمل متروک کے درجہ وجوب واستحباب پر مبنی ہوگا۔
ہاں اگر ترک عمل دینی نقطہ نظر سے ہو تو وہ دین میں بدعت شمار ہوگا،چاہے عمل متروک مباح ہو یا واجب اور خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے یا عادات سے،نیز قول سے ہو یا فعل سے یا اعتقاد سے،اگر اس کے ترک سے اللہ کی عبادت مقصود ہوگی تو ایسا کرنے
|