|
نماز میں ایک رکعت کا اضافہ کر دے،یا دین میں ایسی چیز لا داخل کرے جو اس میں سے نہ ہو یا کسی عبادت کو اسوئہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی خاص کیفیت میں انجام دے[1] یا کسی مشروع عبادت کو کسی وقت کے ساتھ خاص کر دے جسے شریعت نے خاص نہ کیا ہو،جیسے خصوصیت کے ساتھ پندرہویں شعبان کے دن روزہ رکھے اور رات میں عبادت کرے۔[2]
(۲) بدعت تَر کی (کسی چیز کو بلا دلیل ترک کر دینے کی بدعت:....بدعت کی یہ قسم بھی بدعت کی تعریف کے عموم میں داخل ہے کہ یہ ’’دین میں ایک نو ایجاد طریقہ ہے‘‘[3] چنانچہ کسی چیز کو بلا دلیل چھوڑنے سے بھی بدعت کا وقوع ہو جاتا ہے،خواہ اسے حرام سمجھا جائے یا نہ سمجھا جائے،کیونکہ کسی چیز کو جو شرعاً حلال اور جائز ہے،اگر انسان اسے اپنے اوپر حرام کر لے یا قصدًا ترک کر دے تو اس کا یہ ترک کرنا دو صورتوں سے خالی نہ ہوگا یا تو اس کا کوئی شرعی جواز ہوگا یا اس کے برعکس،اب اگر اس کا کوئی شرعی جواز ہے تو اسے ترک کرنے میں ادنیٰ حرج نہیں کیونکہ یہ چیز تو شرعاً جائز اور مطلوب امر ہے جیسے کوئی شخص کسی خاص قسم کے کھانے کو اس لئے ترک کر دے کہ وہ کھانا اس کے جسم یا عقل یا دین کے لئے کسی بھی حیثیت سے ضرر رساں ہے‘ تو اس میں کوئی حرج نہیں،بلکہ یہ تو ضرر رساں امور سے حفظان (بچاؤ) کے قبیل سے ہے،جس کی اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
((یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَائَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ،فَاِنَّہٗ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَاَحْصَنُ لِلْفَرَجِ،وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ
|