’’بدعت دین اسلام میں ایجاد کردہ وہ طریقہ ہے جو بہ ظاہر شریعت کے مشابہ ہو،[1] جس پر چل کر اللہ کی عبادت میں مبالغہ مقصود ہو۔‘‘
یہ تعریف ان لوگوں کی رائے کے مطابق ہے جو بدعت کو عبادات کے ساتھ خاص کرتے ہوئے عادات کو اس سے خارج سمجھتے ہیں،البتہ عاداتی امور کو بدعت میں شامل سمجھنے والوں کے نزدیک بدعت کی تعریف یوں ہے:
’’بدعت دین اسلام میں ایجاد کردہ وہ طریقہ ہے جو بظاہر شریعت کے مشابہ ہو،جس پر چل کر وہی مقصود ہو جو شریعت سے مقصود ہوتا ہے۔‘‘[2]
پھر امام شاطبی رحمہ اللہ نے اپنی دوسری تعریف کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ عادات چونکہ عام امور زندگی سے تعلق رکھتی ہیں،اس لیے ان میں بدعت نہیں ہوتی،البتہ انہیں عبادت سمجھ کر انجام دیے جانے،یا عبادت کے قائم مقام سمجھنے کے سبب ان میں بدعت داخل ہوجاتی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ امام شاطبی رحمہ اللہ نے دونوں تعریفوں کے درمیان تطبیق دی ہے اور جن امور میں تعبد لازمی ہے،ان کی مثال خرید و فروخت،نکاح و طلاق،اجارہ داری اور جرائم و خصومات وغیرہ سے دی ہے،کیونکہ یہ امور کچھ ایسے شرعی شرائط و ضوابط سے مقید ہیں جن میں مکلف کا کوئی اختیار نہیں۔[3]
(۳) حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : [4]
’’بدعت سے مراد وہ نوا یجاد امور ہیں جن کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو۔رہے وہ امور جن کی اصل شریعت میں موجود ہے تو وہ شرعاً بدعت نہیں کہلائیں گے،گو
|