لغوی اصطلاح میں بدعت ہیں،چنانچہ جس نے بھی کوئی ایسی چیز ایجاد کرکے دین کی طرف منسوب کی جس کی دین میں کوئی اصل نہیں تو وہ گمراہی ہے اور دین اس سے بری ہے،چاہے وہ اعتقادی مسائل ہوں،یا اعمال ہوں،یا اقوال ہوں،خواہ ظاہری ہوں یا باطنی۔‘‘
البتہ سلف صالحین سے جو بعض بدعتوں کے استحسان کی بات منقول ہے تو ان سے لغوی معنی میں بدعت مراد ہے،نہ کہ شرعی اصطلاح میں،چنانچہ اسی قبیل سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول بھی ہے جب انہوں نے رمضان المبارک میں لوگوں کو ایک امام کی اقتدا میں باجماعت تراویح ادا کرنے کے لیے جمع کیا اور پھر لوگوں کو ایک امام کی اقتدا میں باجماعت تراویح ادا کرتے دیکھ کر فرمایا۔
’’نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ‘‘[1]
’’کتنی اچھی بدعت ہے یہ!‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مطلب یہ تھا کہ یہ عمل اس شکل میں اس وقت سے پہلے انجام نہ دیا جاتا تھا،البتہ شریعت میں اس کے اصول و دلائل موجود تھے جن سے یہ مسئلہ مستنبط تھا،علی وجہ المثال چند دلائل حسب ذیل ہیں :
۱: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قیام رمضان پر ابھارتے اور اس کی رغبت دلاتے تھے،اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں مختلف جماعتوں میں اور انفرادی طور پر بھی قیام اللیل ادا کرتے تھے،اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام کو کئی راتیں باجماعت قیام اللیل پڑھایا،اور پھر اس خوف سے رک گئے کہ کہیں امت پر قیام اللیل (تراویح) فرض نہ ہوجائے،اور لوگ اس کی ادائیگی نہ کرسکیں اور یہ خوف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جاتا رہا۔[2]
|