کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ اس نادان نے خود اپنے آپ ظلم کیا ہے اور اللہ کی ناراضی سے دوچار ہوا ہے،لہٰذا آپ اس سے بہتر بن کر اس کے ساتھ عفوو درگزر کا معاملہ کریں اور اس کے لیے بخشش طلب کریں۔ارشادِ باری ہے:
﴿أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴾ [النور:۲۲]
’’ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہاری مغفرت فرمادے،اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
۹: موت کی یاد اور قلت آرزو: اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾ [آل عمران:۱۸۵]
’’ ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تمھیں اپنا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا،پس جو شخص آگ سے ہٹادیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے بے شک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔‘‘
نیز ارشاد ہے:
﴿وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾ [لقمان:۳۴]
’’ کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
۱۰: سوء خاتمہ کا خوف: چنانچہ بندے کو ڈرنا چاہیے کہ ریا اور دکھاوے کے یہ اعمال ہی اس کا آخری عمل اور اس کی زندگی کا آخری لمحہ نہ ہوجائیں کہ اس کے نتیجہ میں بڑا عظیم خسارہ اُٹھانا پڑے،کیونکہ انسان کی جس حالت میں موت واقع ہوتی ہے قیامت کے دن وہ اسی حالت میں اُٹھایا بھی جائے گا لوگ اپنی نیتوں پر اُٹھائے جائیں گے اور سب سے
|