(ز) حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’ اگر مجھے یقین ہوجائے کہ اللہ نے میری ایک نماز قبول فرمالی ہے تو یہ میرے نزدیک دنیا اور اس کی ساری نعمتوں سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ﴾ [المائدۃ:۲۷]
’’ بے شک اللہ عزوجل متقیوں ہی سے قبول فرماتا ہے۔‘‘ [1]
(ک) حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں : ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سو بیس انصاری صحابہ کو پایا،ان میں سے کسی سے بھی کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو ہر ایک یہی چاہتا کہ اس کا بھائی (مسئلہ بتا کر) اس کی طرف سے کفایت کردے۔[2]
۵: اللہ کی مذمت سے فرار: کیونکہ لوگوں کی مذمت سے فرار اختیار کرنا ریاکاری کے اسباب میں سے ہے،لیکن عقل مند جانتا ہے کہ اللہ کی مذمت سے بچنا زیادہ ضروری ہے،کیونکہ اللہ کی مذمت عیب کی چیز ہے،جیسا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ’’ اے اللہ کے رسول ! میری تعریف باعث زینت ہے اور میری مذمت عیب دار کرنے والی ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( ذَاکَ اللّٰہُ۔)) [3]
’’ یہ اللہ کی خصوصیت ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ بندہ جب لوگوں سے ڈرتا ہے تو اور اللہ کو نارض کرکے لوگوں کو راضی و خوش کرتا ہے تو اللہ عزوجل اس سے ناراض و غضب ناک ہوجاتا ہے اور لوگوں کو بھی
|