Maktaba Wahhabi

191 - 326
مقصد ریا و نمود ہو۔ ۳: ریاکاری اعمال صالحہ کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے،کیونکہ ریاکاری اعمال صالحہ کی برکت ختم کردیتی ہے۔والعیاذ باللہ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴾ [البقرۃ:۲۶۴] ’’ جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر،اس کی مثال اس صاف (چکنے) پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ (بارش)برسے اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑدے،ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ یہ ریاکاری کے وہ اثرات ہیں جو نیک عمل کو ایسے وقت میں کلی طور پر مٹادیتے ہیں جب انسان (نیک عمل کرنے والا) مجبور ہو کر رہ جاتا ہے اور اسے اس عمل کو لوٹانے کی استطاعت نہیں ہوتی۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ﴾ [البقرۃ:۲۶۶] ’’ کیا تم میں سے کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا باغ
Flag Counter