ہو،جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور ہر قسم کے پھل موجود ہوں،اور اس شخص کو بڑھاپا آگیا ہو اور اس کے ننھے ننھے بچے بھی ہوں اور اچانک باغ کو بگولا لگ جائے جس میں آگ بھی ہو،پس وہ باغ جل جائے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔‘‘
چنانچہ اس عمل صالح کی مثال میوہ جات سے بھرپور عظیم باغ کی سی ہے،تو کیا کوئی شخص ایسا بھی ہوسکتا ہے جو یہ چاہے کہ ان میوہ جات اور اس عظیم باغ کا مالک ہو اور پھر ریاکاری کرکے اسے کلی طور پر مٹادے،جبکہ وہ اس کا شدید حاجت مند بھی ہو؟ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حدیث قدسی میں ) اپنے رب سبحانہ وتعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا ہے:
(( أَنَا أَغْنِی الشُّرَکَائَ عَنِ الشِّرْکِ،مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَک مَعِيَ فِیْہِ غَیْرِيْ تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ۔)) [1]
’’ میں شرک سے تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہوں،جس نے کوئی عمل کیا جس میں میرے علاوہ کسی اور کو شریک کیا تو میں اسے اور اس کے شرک (دونوں ) کو ترک کردیتا ہوں۔‘‘
اور حدیث میں ہے:
(( إِذَاجَمَعَ اللّٰہُ الْأَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ،لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْہِ نَادٰی مُنَادٍ : مَنْ کَانَ أَشْرَکَ فِيْ عَمَلٍ عَمَلَہُ لِلّٰہِ أَحَدًا فَلْیَطْلُبْ ثَوَابَہُ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ،فَإِنَّ اللّٰہَ أَغْنَی الشُّرَکَائَ عَنِ الشِّرْکِ۔)) [2]
|