بخشے گا،یہ اس لیے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کفر کیا ہے،اور اللہ ایسے فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
ان دونوں آیتوں میں منافقین کے درج ذیل چند اوصاف ہیں :
۱۔ منافقین دل کھول کر صدقات و خیرات کرنے والوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں،چنانچہ زیادہ خرچ کرنے والے پر طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریاکاری اور دکھاوے کے لیے خرچ کررہا ہے،اور کم صدقہ کرنے والے فقیر کو طعنہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ اس کے صدقہ سے بے نیاز ہے۔
۲۔ مومنوں کا مذاق اُڑانا۔
۳۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کفر و انکار۔
نہم: ....اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ نَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُمْ مِنْ أَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوا صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ ﴾ [التوبۃ:۱۲۷]
’’ اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں کہ تم کو کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے،پھر چپکے نکل جاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ان کا دل پھیردیا ہے اس وجہ سے کہ وہ ناسمجھ لوگ ہیں۔‘‘
چنانچہ جب کوئی سورت نازل ہوتی تو اس پر عمل نہ کرنے کا قطعی فیصلہ کرتے ہوئے منافقین ایک دوسرے کو دیکھتے اور مومنوں کی نگاہوں سے چھپنے کے لیے موقع ڈھونڈھتے،پھر چپکے سے کھسک جاتے اور اعراض و تکبر کرتے ہوئے واپس ہوجاتے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے عمل کے لحاظ سے بدلہ دیا،جس طرح وہ اللہ کی آیتوں پر عمل کرنے سے پھرگئے،اسی طرح اللہ نے ان کے دلوں کو حق سے پھیردیا اور ان پر تالے لگادیے اور ایسی ناکارہ قوم بنادیا جو کچھ نہیں سمجھتی جس سے انھیں فائدہ ہو،کیونکہ اگر وہ سمجھتے توسورت کے نازل ہونے پر اس پر
|