Maktaba Wahhabi

108 - 326
ہوئی اپنی نیکیوں کے عوض دنیا میں کھاتا پیتا ہے،یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہوگی جس کا اسے بدلہ دیا جائے۔‘‘ ۶۔ تمام اقوال و اعمال کی صحت و کمال خود عمل کرنے والے کے دل میں ایمان و اخلاص کے اعتبار سے ہوا کرتی ہے،اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ ﴾ [الانبیاء:۹۴] ’’ تو جو بھی نیک عمل کرے دراں حالیکہ وہ مومن بھی ہو تو اس کی کوشش کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔‘‘ یعنی ایسے شخص کی کوشش اکارت اور اس کا عمل ضائع نہیں کیا جائے گا،بلکہ اسے اس کی ایمانی قوت کے اعتبار سے (بڑھا کر) دگنا چو گنا (اجر) عطا کیا جائے گا۔ نیز ارشادِ گرامی ہے: ﴿وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا﴾ [الاسراء:۱۹] ’’ اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لیے ہونی چاہیے وہ کرتا بھی ہو اور وہ باایمان بھی ہو،تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے یہاں پوری قدر دانی کی جائے گی۔‘‘ ’’ آخرت کے لیے کوشش ‘‘ کا مطلب آخرت سے قریب کرنے والے ان اعمال کی بجاآوری اور ان پر عمل کرنا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مشروع فرمایا ہے۔ ۷۔ صاحب ایمان کو اللہ تعالیٰ صراطِ مستقیم کی ہدایت عطا فرماتا ہے،اور صراطِ مستقیم میں اللہ اسے علم حق اور اس پر عمل کی نیز محبوب و پرمسرت چیزوں کے حصول پر شکر گزاری کی اور مصائب و پریشانیوں پر اظہار رضامندی اور صبر کی ہدایت دیتا ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
Flag Counter