Maktaba Wahhabi

459 - 462
کوائف جمع کرنے کے لیے انھوں نے مرتب کروایا۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جماعت کے بارے میں ان کے احساسات کیا تھے اور وہ اسے کس ڈھب اور سلیقے کے ساتھ منظم کرنے کا عزم رکھتے تھے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آج بھی انہی خطوط پر کام کیا جائے تو ہر ہر فرد کے بارے میں معلومات مرکزِ جماعت میں جمع ہو سکتی ہیں اور ان بکھرے ہوئے موتیوں کو ایک سلک میں پرویا جا سکتا ہے۔ شہرِ فیصل آباد میں بھی ان کی خدمات کوئی ڈھکی چھپی نہیں، یہاں مساجد کی تعمیر اور ترقی میں ان کی مساعی کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ جماعت کے افراد پر جہاں کہیں کوئی افتاد پڑی یا مسجد اہلِ حدیث کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ یا قانونی پیچیدگی پیدا ہوئی تو اس کے ازالے کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ان کی علمی و شخصی وجاہت کی بنا پر دیوبندی و بریلوی مکتبِ فکر کے حضرات بھی ان کی رائے کا احترام کرتے تھے اور شہر کی انتظامیہ بھی اس میں وزن محسوس کرتی تھی، بلکہ جب انتظامیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت جرأت و بے باکی کا مظاہرہ کرتے تو دیکھنے والے حیران و ششدر رہ جاتے۔ حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر، مولانا حبیب الرحمان یزدانی اور مولانا عبدالخالق قدوسی وغیرہ رحمہم اللہ کے سانحۂ شہادت کے موقع پر احتجاجی پروگرام کو اپنے رفقا کے تعاون سے جس سلیقے سے انھوں نے چلایا، اس کی مثال دوسرے شہروں میں ملنا مشکل ہے۔ انتظامیہ بہرنوع اس میں رکاوٹ پیدا کرنا چاہتی تھی، مگر مولانا مرحوم نے اپنے حسنِ تدبر سے اس کو جماعت کے پروگرام کے مطابق چلایا اور انھیں باور کرایا کہ ہم مظلوم ہیں، مظلوموں کا راستہ مت روکو، یہ ہمارا آئینی و انسانی حق ہے اور بمصداق ع
Flag Counter