Maktaba Wahhabi

434 - 462
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ان کی خبرِ وفات فیصل آباد میں پہنچی تو دھوبی گھاٹ کے وسیع میدان میں ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور نمازِ جنازہ انہی کے ہم نام حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب محدث ویرووالوی نے پڑھائی۔ یہ ناکارہ شوال المکرم کی چھٹیوں میں گھر لیاقت پور گیا ہوا تھا، واپس لوٹا تو یہ وحشت ناک خبر سن کر مبہوت ہو کر رہ گیا، مگر بجز صبر و تحمل کے اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ مولانا مرحوم چل بسے، مگر ان کا لگایا ہوا شجر ادارۃ العلوم الاثریہ بحمد اللہ اب تن آور درخت بن چکا ہے، اس ادارہ کے لیے مولانا مرحوم نے تن من دھن سب کچھ قربان کیا، رفقائے ادارہ بھی عزم کیے ہوئے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی توفیق سے اس پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے اور ان شاء اللہ ان کی جلائی ہوئی اس شمع کو کبھی مدھم نہیں ہونے دیں گے۔ ان کے انتقال کے بعد ادارہ کو بڑے ناگفتہ بہ حالات سے گزرنا پڑا، انتقال کے بعد حافظ فتحی مرحوم نے ادارہ کے لیے خرید کی ہوئی کتابوں کو بھجوایا، مگر افسوس کہ بڑی کوشش کے باوجود وہ کتابیں نہ مل سکیں، مسند ابی یعلیٰ کے اس عکسی نسخہ سے جو بنا اور اس کے بعد مختلف جہتوں سے جن پریشانیوں سے ہم دوچار ہوئے، اس کی تفصیل یہاں غیر ضروری ہے۔ بس یہی کہہ سکتا ہوں: ﴿إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللّٰهِ ﴾ [یوسف: ۸۶] حضرت مولانا مرحوم کے انتقال پر مختلف تعزیتی خطوط بھی موصول ہوئے، اسی سلسلے میں شارحِ سنن النسائی حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کا مکتوب بھی ملاحظہ فرمائیے جو خود ان دلوں علیل تھے، چنانچہ موصوف احبابِ ادارہ کو لکھتے ہیں: ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
Flag Counter