Maktaba Wahhabi

268 - 462
’’اس کے بعد مولوی نذیر حسین محدث دہلوی کا ذکر ہونے لگا۔ قطب الموحدین حضرت خواجہ محمد بخش نے عرض کی کہ حضور لوگ مولوی نذیر حسین کو غیر مقلد اور وہابی کہتے ہیں وہ کیسے آدمی تھے؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ وہ تو ایک صحابی معلوم ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: کسی شخص کی عظمت کے لیے یہی کافی دلیل ہے کہ دنیا میں اس کی مانند کوئی نہ ہو۔ چنانچہ آج کل کے زمانے میں علمِ حدیث میں ان کا کوئی نظیر نہیں۔ نیز وہ اس قدر بے نفس ہیں کہ اہلِ اسلام کے کسی فرقے کو برا نہیں کہتے۔ اگرچہ لوگ ان کو منہ پر بُرا بھلا کہتے ہیں، لیکن وہ کسی کو برا نہیں کہتے، یہ بات کس میں ہے؟! اب اگرچہ وہ بہت ضعیف ہو چکے ہیں۔ تاہم وہ اپنا کام خود کرتے ہیں۔ حتی کہ مہمان کو کھانا بھی خود اٹھا کر دیتے ہیں۔ وہ کسی شخص سے نہیں پوچھتے کہ تم صوفی ہو یا کیا مذہب رکھتے ہو۔‘‘[1] علم و عرفان کا یہ ماہتاب ۱۰ رجب بروز دو شنبہ ۱۳۲۰ھ بمطابق ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۲ء نمازِ مغرب کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مگر اپنے بعد تلامذہ کا ایک لامتناہی سلسلہ چھوڑ گیا۔ جو ہند کے گوشے گوشے سے تعلق رکھنے والے تھے اور جن میں عجیب طرح کا تنوع پایا جاتا ہے۔ بعض نے سیدین شہیدین کی تحریکِ مجاہدین کی سرپرستی کی اور بعض نے تدریس و تصنیف کا اثر قبول کیا۔ بعض میں وعظ و تبلیغ اور مناظرات کا اثر نمایاں نظر آتا ہے اور بعض میں اصلاحِ احوال اور تربیتِ عوام کا جذبہ موجزن نظر آتا ہے۔ جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، محدث ڈیانوی رحمہ اللہ مقدمہ ’’غایۃ المقصود‘‘ (ص: ۱۱) میں حضرت میاں صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
Flag Counter