Maktaba Wahhabi

228 - 462
نیز لکھتے ہیں: ’’شیخ محمد حیات رتبہ اجتہاد یاد داشت تقلید ہیچ کسے نمے کرد۔‘‘[1] اس کے علاوہ شیخ عقیدتاً خالص سلفی اور شرک و بدعت سے متنفر تھے۔ شیخ الاسلام محمد رحمہ اللہ بن عبدالوہاب جن دنوں آپ کے یہاں تعلیم کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے، انہی دنوں کی بات ہے کہ وہ حجرۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے اور سامنے ایک جماعت حجرۂ مبارک پر دعا و استغاثہ اور دیگر بدعات کا ارتکاب کر رہی تھی اتنے میں حضرت علامہ سندھی تشریف لے آئے۔ شیخ الاسلام نے ان کا استقبال کیا اور جھٹ سے پوچھا: ’’ان لوگوں کے متعلق آپ كاکیا خیال ہے۔‘‘ تو انھوں نے برجستہ یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿إِنَّ هَؤُلَاءِ مُتَبَّرٌ مَا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾[الأعراف: ۱۳۹] ’’ان کا یہ عمل اکارت جائے گا جو بالآخر ان کی تباہی کا باعث بنے گا۔‘‘[2] عقیدے میں شدت ہی کا نتیجہ تھا کہ اپنے شاگردِ رشید مولانا آزاد بلگرامی کے نام پر بھی معترض ہوئے۔ مولانا آزاد نے استادِ محترم کے خط اور اس کے جواب کو ’’ماثر الکرام‘‘ اور ’’سبحۃ المرجان‘‘ میں نقل کیا ہے۔ استاد و شاگرد کی یہ قلمی گفتگو مولانا بلگرامی کے الفاظ ہی میں پڑھنے کے قابل ہے، لکھتے ہیں: ’’شیخ قدس مکتوبی نامزد فقیر نمود و اسم فقیر غلام علی بے اضافت غلام تحریر فرمود از جہت آنکہ در حدیث شریف آمدہ کہ ہمہ کس عباداللہ اند، اطلاق عبودیت نسبت بہ مخلوق نباید کرد۔ فقیر درجواب نامہ نوشت بایں مضمون کہ
Flag Counter