Maktaba Wahhabi

225 - 462
’’انتہائی تعجب کی بات ہے کہ جب حضرات مقلدین کو کسی صحابی کا قول صحیح حدیث کے معارض نظر آتا ہے اور اگر اس کا کوئی محمل نہیں پاتے تو کہتے ہیں کہ یہ حدیث انھیں نہیں پہنچی اور جب کوئی حدیث ان کے امام کے قول کے مخالف نظر آتی ہے تو اس کی تاویل کرتے ہیں اور محامل بعیدہ پر محمول کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ بسا اوقات تو تاویل کے بجائے تحریف سے کام لیتے ہیں، لیکن اگر انھیں کہا جائے کہ شاید تمھارے امام کو یہ حدیث نہیں پہنچی تو کہنے والے پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے اور اس پر انتہائی طعن و تشنیع کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور بدکردار لوگوں میں اس کا شمار ہونے لگتا ہے۔‘‘ نیز فرماتے ہیں: ’’عقل مند کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ یہ لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقائے کرام کے متعلق تو جائز سمجھتے ہیں کہ ’’انھیں حدیث نہیں پہنچی‘‘ مگر ’’ائمہ مذاہب‘‘ کے متعلق یہ قول سننا اور کہنا پسند نہیں کرتے۔ حالانکہ دونوں کے مابین زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ حضرات کتبِ حدیث کا مطالعہ اور اس کی تدریس اس لیے نہیں کرتے کہ اس پر عمل کریں، بلکہ ان کا مقصدِ وحید یہ ہوتا ہے کہ اپنے امام کے دلائل کا پتا لگائیں۔ جو حدیث ان کے قول کے مخالف ہو اس کی تاویل کریں اور جہاں تاویل نہیں ہو سکتی وہاں کہہ دیتے ہیں ہمارے امام ہم سے زیادہ عالم تھے۔ کیا وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ وہ ایسا کرتے ہوئے اللہ کی حجت اپنے پر قائم کرتے ہیں۔ عالم اور جاہل کا معاملہ برابر نہیں۔
Flag Counter