Maktaba Wahhabi

173 - 462
یہی وجہ ہے کہ الفاظِ جرح میں ان کو ’’درجہ خامسہ‘‘ میں جگہ ملی ہے، جن کی روایت درجۂ استشہاد سے قطعاً کم نہیں ہوتی، بلکہ شیخ محمد قائم سندھی نے ’’الفوز الکرام‘‘ میں علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی ’’التعقبات‘‘ اور ’’النکت البدیعات‘‘ سے نقل کیا ہے کہ جس راوی کے متعلق ’’لیس بالقوي‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس کی روایت درجۂ حسن سے کم نہیں ہوتی۔[1] بایں صورت امام دارقطنی نے ابن لہیعہ کو ’’لیس بالقوي‘‘ کہا ہے اور اس کی روایت مندرجہ بالا اصول کے پیشِ نظر حسن ہے، لہٰذا ان پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ الغرض الفاظِ جرح و تعدیل میں اس قسم کا اختلاف متعدد وجوہ کی بنا پر ہوتا ہے اور اس نوعیت کے اختلاف کو لے کر محدثین پر طعن و تشنیع وہی شخص کر سکتا ہے جو ان کی اصطلاحات سے ناواقف ہو۔ تعجب ہے کہ ’’فقہاء‘‘ کے اقوال میں جب اس قسم کا تعارض و تخالف واقع ہوتا ہے تو یہ ’’حضرات‘‘ ان کی بے سروپا توجیہات و تاویلات کے درپے ہوتے ہیں، لیکن اگر محدثین کے اقوال میں کہیں ایسی صورت پیدا ہو جائے تو ان پر اعتراض کرتے ہوئے پھولے نہیں سماتے اور پھر اس کے ثبوت میں سرتاپا زور صرف کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے مقالہ ’’جرح و تعدیل اور اس کی اصطلاحات‘‘ میں اس موضوع پر قدرے تفصیل سے لکھا ہے، جسے ہم عنقریب ہدیۂ ناظرین کریں گے۔ إن شاء اللہ امام دارقطنی رحمہ اللہ پر اعتراضات کے حوالے سے یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ امام دارقطنی نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا کہ اس کی سند صحیح ہے، جس پر تعاقب
Flag Counter