Maktaba Wahhabi

172 - 462
عبدالرحمان کو ضعیف کہہ کر اس روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ تیسرا اعتراض جو اس سلسلے میں کیا گیا ہے وہ یہ کہ سنن دارقطنی (ص: ۱۳۴) پر ابن لہیعہ کو ضعیف کہنے کے باوجود اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ تو یہ اعتراض بھی درست نہیں، کیوں کہ ابن لہیعہ پر جرح اس کی ذات کے اعتبار سے ہے اور جو انھوں نے اس کی سند کو حسن کہا ہے تو وہ باعتبار صحتِ متن کے ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اس قسم کی احادیث کو متعدد مقامات پر حسن کہا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’النکت علی ابن الصلاح‘‘ میں اس کی متعدد امثلہ ذکر کی ہیں۔ البتہ یہاں ہم ایک اصولی مسئلے کی طرف ناظرین کی توجہ دلاتے ہیں اور وہ یہ کہ ائمۂ جرح و تعدیل کسی راوی پر جرح کرتے ہیں تو کبھی ’’لیس بالقوي‘‘ اور کبھی ’’لیس بقوي‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ کتبِ رجال کی ورق گردانی اور تراجمِ رجال پر غور و فکر کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان دونوں الفاظ میں فرق ہے۔ ’’لیس بقوي‘‘ میں تو راوی کے قوی ہونے کی نفی ہے اور ’’لیس بالقوي‘‘ میں اس درجۂ کاملہ کی نفی مقصود ہوتی ہے اور اس کی روایت درجہ حسن سے ساقط نہیں ہوتی۔ چنانچہ مولانا امیر علی رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے: ’’یطلق ’’لیس بالقوي‘‘ علی الصدوق‘‘[1] اسی طرح شیخ عبدالرحمان بن یحییٰ المعلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کلمۃ لیس بقوي تنفي القوۃ مطلقاً وإن لم تثبت الضعف مطلقاً وکلمۃ لیس بالقوي إنما تنفي الدرجۃ الکاملۃ من القوۃ‘‘[2]
Flag Counter