Maktaba Wahhabi

151 - 462
بخاری ہی کا نام اولیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ کلام اللہ کے بعد اس کتاب کے ساتھ علمائے امت نے جس قدر بحث و تمحیص اور اس کی تشریح و توضیح سے کام لیا۔ اس قدر کسی دوسری کتاب کی خدمت نہیں کی گئی۔ ہر صاحب نے اپنے ذوقِ سلیم کے مطابق اسے موضوعِ سخن بنایا۔ اگر کسی نے لغت پر بحث کی تو دوسرے نے الفاظ کے اعراب وغیرہ پر خامہ فرسائی کی۔ کسی نے تراجمِ ابواب اور استنباطِ مسائل کو عنوان بنایا۔ تو کسی نے رجال کو موضوعِ بحث بنایا۔ حاجی خلیفہ نے کشف الظنون میں تقریباً ۸۲ شروح کا ذکر کیا ہے۔ الغرض صحیح بخاری کے ہر ہر لفظ و نقطہ پر بحث کی گئی اور اس کا کوئی گوشہ بھی تشنہ نہیں چھوڑا۔ ان ہی میں سے بعض علمائے ربانیین ایسے بھی ہو گزرے ہیں، جنھوں نے صحیح بخاری کے اوہام و علل کے اظہار کو موضوعِ بحث بنایا، چنانچہ ابو مسعود الدمشقی (م ۴۰۱ھ) نے صحیحین پر استدراک لکھا، اسی طرح ابو علی الغسانی الجیانی نے اپنی تصنیف تقیید المہمل میں اس کے مہمل اور مشکل راویوں کو موضوعِ سخن بنایا۔ علامہ عبدالرحمان بن سراج الدین عمر علی بلقینی (م ۸۲۴ھ) نے ’’الإفھام بما وقع في البخاري من الإبھام‘‘ لکھی۔ ضبطِ اسماء پر علامہ عبدالغنی رحمہ اللہ بن احمد البحرانی الشافعی نے ’’قرۃ العین في ضبط أسماء رجال الصحیحین‘‘ لکھی، بلکہ بعض نے تو صحیحین کے صحابہ اور تابعین تک کو مستقل تصانیف میں جمع کیا۔ لیکن ہم یہاں یہ ذکر کر دینا ضروری خیال کرتے ہیں کہ ابو مسعودا لدمشقی رحمہ اللہ اور ابو علی جیانی رحمہ اللہ وغیرہ کے اعتراضات میں وہ جان نہیں، جو امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اعتراضات میں ہے، جیسا کہ ہدی الساری کے اس باب کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے، جس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان تمام کا جواب دیا ہے، جس کا مطالعہ صاحبِ ذوق
Flag Counter