Maktaba Wahhabi

208 - 393
شخص کے سپرد کردیا، جو اس کا ولی نہیں تھا اور اس نے ایک شخص سے اس کا نکاح کردیا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی، تو آپ نے نکاح کرنے اور کرانے والے کو کوڑے لگائے اور اس نکاح کو ردّ کردیا۔ [1] حافظ ابوبکر عبدالرزاق نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ کوئی عورت اپنا نکاح خود نہ کرے کیونکہ وہ عورت زانیہ ہے، جو اپنا نکاح خود کرتی ہے۔ [2] ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بدکار ہیں وہ عورتیں، جو ولی کے بغیر نکاح کرتی ہیں … میرے خیال میں انھوں نے یہ بھی فرمایا … نکاح کے وقت چار آدمیوں کا ہونا ضروری ہے۔(۱)نکاح کرنے والا۔(۲)ولی اور(۳،۴)دو گواہ۔ [3] حافظ عبدالرزاق نے عمرو بن دینار سے روایت کیا ہے کہ ابواُمامہ کی بیٹی نے، جو خاندان بکر بن کنانہ بن مضرس کی ایک عورت تھی، اپنا نکاح خود کرلیا، تو علقمہ بن ابی علقمہ عتواری نے اس کے بارے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کو لکھا جب کہ وہ مدینہ میں مقیم تھے کہ میں اس عورت کا ولی ہوں اور اس کا میری اجازت کے بغیر نکاح کیا گیا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس نکاح کو ردّ کردیا حالانکہ اس سے نکاح کرنے والے شخص نے اس سے جنسی تعلق بھی قائم کرلیا تھا۔ [4] امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل علم، جن میں حضرت عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ e اور کئی دیگر شامل ہیں، کا اس باب میں عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر ہے کہ لَا نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِیٍّ۔ اسی طرح بعض فقہائے تابعین سے بھی یہ مروی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح
Flag Counter