Maktaba Wahhabi

256 - 393
میں فقہاء کے ان مختلف اقوال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دو یا تین یا چار یا پانچ یا چھ یا سات یا آٹھ یا اس سے کم و بیش پر اکتفاء کرنے کی کوئی وجہ نہیں، پھر فرماتے ہیں کہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر وہ عیب جس کی وجہ سے ایک دوسرے سے نفرت کرتا ہو اور اس سے وہ رحمت و مؤدت حاصل نہ ہوسکتی ہو، جو مقصود نکاح ہے، اختیار کو واجب کردیتا ہے اور اس صورت میں ردّ کردینا بیع کے ردّ کردینے سے زیادہ اولیٰ ہے، جس طرح کہ نکاح کی شروط بیع کی شروط سے زیادہ اولیٰ ہیں، جس شخص کو فریب اور دھوکہ دیا گیا ہو تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے اس کے لیے دھوکے اور فریب کو کبھی بھی لازم قرار نہیں دیا، جو شخص بھی شریعت کے مصادر و موارد اور اس کے عدل و حکمت کی روشنی میں شریعت کے مقاصد و مصالح پر غور کرے گا، اس سے اس قول کا راجح اور قواعد شریعت سے قریب ہونا مخفی نہیں رہے گا۔ [1] خلاصۂ کلام یہ کہ اسلامی شریعت بیضاء، نکاح کے فحاشی کے سبب بننے کے رستے میں اس طرح حائل ہے کہ اس نے اس صورت میں شادی کے ربط کے خاتمے کو آسان بنادیا ہے۔ جب شادی زوجین کے عفیف و پاک دامن بنانے میں اپنا مطلوبہ کردار ادا نہ کرسکے۔ ۹۔ ثانیاً:طلاق کا جواز: تمہید: نکاح کو دراصل جاری و ساری رہنا چاہیے اور ازدواجی زندگی الفت و محبت کی فضا میں بسر ہونی چاہیے لیکن اس کے علی الرغم اگر میاں بیوی میں نفرت و بغض اور اختلاف پیدا ہوجائے، تو پھر اس کا بہترین حل کیا ہے؟ کیا ان تمام حالات کے باوجود ہم شادی کے بندھن کو باقی رہنے دیں یا اسے طلاق کی صورت میں ختم کردیں
Flag Counter