Maktaba Wahhabi

267 - 393
نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے کچھ لے لو انھیں(گھروں میں)مت روک رکھنا۔) امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو روکا اور مارنے اور تنگ کرنے سے اسے نقصان پہنچایا یا نفقہ اور باری وغیرہ سے متعلق اس کے حقوق پورے نہ کیے تاکہ وہ فدیہ دے کر اپنے نفس کو اس سے چھڑالے اور اس نے اسی طرح کیا تو خلع باطل ہوگا اور معاوضہ اسے واپس کیا جائے گا۔ ابن عباس، عطاء، مجاہد، شعبی، نخعی، قاسم بن محمد، عروہ، عمرو بن شعیب، حمید بن عبدالرحمن اور امام زہری سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ امام مالک، ثوری، قتادہ، شافعی اور اسحق کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب یہ معلوم ہو کہ اس کے شوہر نے اسے نقصان پہنچایا اور تنگ کیا ہے اور معلوم ہو کہ اس نے اس پر ظلم کیا ہے، تو طلاق نافذ ہوجائے گی البتہ مال خاتون کو واپس دے دیا جائے گا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے یہی سنا ہے اور ہمارے ہاں لوگوں کا اسی کے مطابق عمل ہے۔ [1] ۱۷۔ کیا شوہر کے لیے بیوی کے مطالبۂ خلع کو ماننا واجب ہے؟ اس سوال کے جواب کے بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے، بعض کی رائے ہے کہ شوہر کے لیے بیوی کے مطالبہ کو تسلیم کرنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے جو یہ فرمایا تھا کہ ’’ باغ کو قبول کرلو اور اسے ایک طلاق دے دو ‘‘، تو آپ کا یہ حکم راہنمائی کے لیے تھا، وجوب کے لیے نہیں تھا۔[2] امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اختلاف کی حالت میں طلاق مستحب ہے نیز اس حالت میں بھی، جو عورت کو خلع کے لیے مجبور کردے تاکہ اس سے ضرور دور
Flag Counter