Maktaba Wahhabi

207 - 393
والے نے)اس کے ساتھ مجامعت کرلی تو اسے مہر ملے گا کیونکہ اس نے اس کی شرم گاہ کو حلال قرار دے لیا ہے اور اگر اختلاف ہو تو بادشاہ اس کا ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہ ہو۔ ‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَۃُ الْمَرْأَۃُ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَۃُ نَفْسَھَا۔[1] ’’ کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت اپنا نکاح خود کرلے۔ ‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نکاح میں ولی کی شرط کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کے بارے میں قرآنِ مجید نے کئی ایک مقامات پر اور سخت نے بھی کئی ایک مقامات پر راہنمائی کی ہے۔ حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں بھی معمول یہی تھا کہ عورتوں کی شادیاں مرد کراتے تھے، ایسی کوئی مثال نہیں کہ کسی عورت نے اپنا نکاح خود کرایا ہو، اسی سے باقاعدہ نکاح کرنے والی اور در پردہ دوستی کرنے والی عورتوں میں فرق واضح ہوتا ہے، اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ’’ کوئی عورت اپنا نکاح خود نہ کرے کیونکہ وہ عورت بدکار ہے، جو اپنا نکاح خود کرتی ہے۔ ‘‘[2] حافظ ابوبکر عبدالرزاق صنعانی رحمہ اللہ نے ابن جریج سے روایت کیا ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے عبدالحمید بن جبیر نے یہ خبردی کہ عکرمہ بن خالد نے انھیں بتایا کہ رستے میں ایک جماعت جمع ہوگئی، تو ایک ثیبہ عورت نے اپنا معاملہ قوم میں سے ایک ایسے
Flag Counter