Maktaba Wahhabi

168 - 393
عرصے کے لیے تکلیف دہ ہے اور اس سے جدائی ممکن نہیں۔ [1] ۹۔ اس لڑکی کے بارے میں حکم جس کی مرضی کے بغیر شادی کردی گئی ہو: اسلام نے بیٹی کی شادی کے لیے اس کی رضامندی کی شرط پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ جب اس کے اولیاء میں سے اس کا باپ یا کوئی اور اس کی رضامندی کے بغیر اس کی شادی کردے، تو اسے فسخ نکاح کا حق بھی دیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح میں خنساء بنت خدام انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ ان کے باپ نے ان کی شادی کردی، وہ شیبہ تھیں، انھوں نے اس شادی کو ناپسند کیا تو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا ذکر کیا، تو آپ نے ان کے نکاح کو ردّ کردیا۔ [2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ثیبہ کے اس کی رضامندی کے بغیر کیے گئے نکاح کو ردّ کردینے پر اجماع ہے الا یہ کہ امام حسن بصری سے منقول ہے کہ انھوں نے باپ کے لیے ثیبہ کو مجبور کرنا جائز قرار دیا ہے۔ [3] جہاں تک بالغہ باکرہ عورت کا تعلق ہے، اس کے بارے میں امام ابن ماجہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ایک باکرہ لڑکی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے باپ نے اس کی شادی کردی ہے، جسے وہ ناپسند کرتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے(اس شادی کے باقی رکھنے یا نہ رکھنے کا)اختیار دے دیا تھا۔ [4] امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ثیبہ اور باکرہ
Flag Counter