Maktaba Wahhabi

324 - 393
جو محاربین سے مل کر لیے ہوئے مال کو تقسیم کرے، نیز اسے اس قائد کے قائم مقام قرار دیتے ہیں، جو دو کو جمع کرنے کے لیے مال وصول کرتا ہے، اس کا حال بری بڑھیا یعنی حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کے مشابہہ ہے، جو بدکار لوگوں کو ان کے مہمانوں کے بارے میں بتادیتی تھی اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَأَنْجَیْنٰہُ وَأَھْلَہٗ إِلاَّ امْرَأَتَہٗ کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ [1] (……………) یہ سب کچھ ان عظیم فوائد کی تاکید ہے، جن پر اقامت حدود مشتمل ہے اور ان میں فوائد میں سے ایک، دوسروں کو گناہوں کے ارتکاب سے منع کرنا ہے۔ واللہ أعلم۔ ۲۱۔ حدود کی علانیہ تنفیذ میں حکمت: اسلامی شریعت نے حکم دیا ہے کہ حدود علانیہ طور پر نافذ کی جائیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفَۃً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ [2] (اور ………………………) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان دونوں کو مومنوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں سزا اور عذاب سے دوچار کیا جائے کیونکہ جب اس نے گناہ کا ارتکاب ظاہراً کیا تو اس کی سزا بھی ظاہری طور پر ہونی چاہیے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ جس نے خفیہ طور پر گناہ کیا، وہ توبہ بھی خفیہ طور پر کرے اور جس نے گناہ علانیہ طور پر کیا، اسے توبہ بھی علانیہ طور پر کرنی چاہیے۔ اور حدیث میں ہے کہ گناہ جب خفیہ طور پر کیا جائے تو اس کا نقصان گناہ گار
Flag Counter