Maktaba Wahhabi

294 - 393
قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ [1] (صدقات(یعنی زکوٰۃ و خیرات)تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنانِ صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں(کی مدد)میں(بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے یہ حقوق)اللہ کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا(اور)حکمت والا ہے۔) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح اغنیاء پر زکوٰۃ کے وجوب کو بیان کیا ہے، اسی طرح آپ نے ان میں فقراء کے حق کو بھی بیان فرمایا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا اور فرمایا:انھیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ اس بات کو مان لیں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دن رات میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اس بات کو بھی مان لیں، تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں صدقہ واجب قرار دیا ہے، جو ان کے دولت مندوں سے وصول کرکے ان کے فقراء میں تقسیم کردیا جائے گا۔ [2] ۷۔ زکوٰۃ کی وصولی اور فقراء میں اس کی تقسیم حکومت کا فرض ہے: قابل ذکر بات یہ ہے کہ فقراء کو دولت مندوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دیا گیا کہ اگر وہ چاہیں تو انھیں اپنے اموال کی زکوٰۃ دیں اور نہ چاہیں تو نہ دیں بلکہ شریعت بیضاء نے یہ ذمہ داری اسلامی حکومت کے کندھوں پر ڈال دی ہے کہ وہ دولت مندوں
Flag Counter