Maktaba Wahhabi

73 - 393
دامنی جو کبھی وجہ شرف ہوتی تھی، مذاق بن جائے، وہ شرم و حیا ختم ہوجائے جو حسن و جمال کو چار چاند لگادیتی تھی، مرد اپنی متعدد غلطیوں پر فخر کریں، عورتیں غیر محدود مدہوشیوں میں غرق ہونے کے لیے مردوں کے مساوی حقوق کا مطالبہ کریں، شادی سے قبل ہی جنسی تعلق عام معمول بن جائے اور طوائف پولیس کی نگرانی کی وجہ سے نہیں بلکہ محبوباؤں کے ساتھ مقابلہ کی وجہ سے سڑکوں سے غائب ہوجاتی ہیں۔ ‘‘[1] ڈاکٹر نکول نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’ اب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اوائل عمر ہی سے اپنے گھروں کو چھوڑ دینے کی استطاعت رکھتے ہیں، وہ کرایہ پر لیے ہوئے فلیٹ کو اپنے دوستوں میں تقسیم کرلیتے ہیں اور یہ فلیٹس انھیں اپنے خاندانی گھر سے زیادہ پسند ہیں۔ یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اپنی شادی کو مؤخر کردیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات میں حرام جنسی تعلقات کا رواج ہے اور ترقی یافتہ طبقہ کی دو شیزہ کے لیے یہ بہت آسان ہوگیا ہے کہ وہ مختصر مدت کے لیے کسی بھی نوجوان کو کرایہ پر حاصل کرے تاکہ اس کے ساتھ زنا کرسکے۔ ‘‘[2] ۷۔ بعض اعداد و شمار: یورپی ممالک کے بارے میں شائع شدہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں شادی کرنے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ پیری جلموٹ نے پہلی مرتبہ شادی کرنے والے مردوں اور عورتوں کی شرح کو دو چارٹوں کے ذریعہ واضح کیا ہے، ان میں سے ایک چارٹ مردوں کے بارے میں اور دوسرا عورتوں کے بارے میں ہے۔ ہم یہ دونوں چارٹ قاری کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ حقیقت حال کی وضاحت ہوجائے۔
Flag Counter