اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴾[الزمر:۳۸]
’’ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اچھا یہ تو بتاؤ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ تعالیٰ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے نقصان کو ہٹاسکتے ہیں ؟ یا اللہ تعالیٰ مجھ پر مہربانی کا ارادہ کرے تو کیا یہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں ؟ آپ کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کافی ہے،بھروسا کرنے والے اسی پر بھروسا کرتے ہیں۔‘‘
۷۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
﴿وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ (106)وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴾[یونس:۱۰۶،۱۰۷]
’’ اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرنا جو تجھے نہ کوئی نفع پہنچاسکے اور نہ کوئی ضرر پہنچاسکے،پہر اگر ایسا کیا تو ایسی صورت میں تم ظالموں میں سے ہوجاؤگے،اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اور کوئی اُسے دُور کرنے والا نہیں،اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں،وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والا ہے۔‘‘
اور یہ ہر مخلوق کا وصف ہے کہ نہ تو وہ نفع پہنچاسکتا ہے نہ نقصان،درحقیقت نفع و نقصان پہنچانے والا اللہ تعالیٰ ہے،اور جس شخص نے ایسے کو پکارا جو نہ تکلیف پہنچاسکتا ہے نہ نفع دے سکتا ہے،تو اس نے شرکِ اکبر کا ارتکاب کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا،اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیراللہ کو پکار کر مشرکین اور ظالموں میں سے ہوسکتے ہیں تو آپ کے علاوہ کی کیا حیثیت ہے؟[1]
|