۴۔ یہ چیز یقینی طور پر معلوم ہے کہ مشرکین اللہ کو چھوڑ کر انبیاء یا صالحین یا فرشتوں یا مسلمان جنوں کی عبادت کرتے ہیں وہ ان سے بیزار ہو کر خود عمل صالح اور اپنے رب سے قریب ہونے میں منافست کے ذریعہ اللہ کی طرف محتاجی کا اہتمام کرتے ہیں،اس کی رحمت کی اُمید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں تو جس کی یہ حالت ہو اس کی عبادت کیسے کی جاسکتی ہے؟ [1]
ارشادِ باری ہے:
﴿أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا ﴾ [الاسراء:۵۷]
’’ جنھیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہوجائے،وہ خود اس کی رحمت کی اُمید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں،بے شک تیرے رب کے عذاب سے ڈرنا ہی چاہیے۔‘‘
۵۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انتہائی وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیا ہے کہ اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کی جاتی ہے ان میں تمام پہلو سے دعاکی عدم قبولیت اور عاجزی کے تمام اسباب موجود ہیں،کیونکہ یہ لوگ آسمانوں اور زمین میں ایک ذرہ کی مقدار کے بھی مالک نہیں،نامستقل طور پر اور نہ ہی اشتراک کے طور پر،اور نہ ہی ان معبودانِ باطلہ میں سے اللہ کا کوئی اس کی بادشاہت اور تدبیر میں معاون اور مددگار ہے،اور نہ ہی سفارش اس کے پاس کچھ نفع دے سکتی ہے سوائے اس کے جس کے لیے اللہ کی اجازت ہو۔[2] اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
|