’’تم لوگ ضرور باضرور اپنے سے پہلے لوگوں کی راہوں کی پیروی کرو گے،بالشت بہ بالشت اور ہاتھ بہ ہاتھ،یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں بھی داخل ہوئے ہوں گے تو ان کی پیروی میں تم بھی اس میں داخل ہوگے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! کیا یہود و نصاریٰ کی؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کے علاوہ اور کس کی۔‘‘
(۲) بلا علم اللہ پر جھوٹ بات کہنا،کیونکہ جو شخص بھی بدعتیوں کو دیکھے گا اور ان کے حالات کا جائزہ لے گا،وہ لوگوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھنے والا انہی کو پائے گا،جب کہ اللہ رب العالمین نے اپنی ذات پر جھوٹ بات منسوب کرنے سے ڈرایا ہے،ارشاد ربانی ہے:
﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ () لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ () ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ﴾ (الحاقۃ:۴۴تا۴۶)
’’اور اگر یہ ہم پر کوئی جھوٹی بات گھڑلیتا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑلیتے اور پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات پر جھوٹ منسوب کرنے سے متنبہ فرمایا ہے اور ایسا کرنے والے کے لیے سخت عذاب کی وعید فرمائی ہے،ارشاد نبوی ہے:
((مَنْ تَعَمَّدَ عَلَّي کَذِبًا فَلْیَتَبَّوأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔))[1]
’’جس نے جان بوجھ کر میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے۔‘‘
(۳) بدعتیوں کا سنت اور اہل سنت سے بغض رکھنا: اس سے بدعات کی خطرناکی کی وضاحت ہوتی ہے۔امام اسماعیل بن عبد الرحمن صابونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
|