Maktaba Wahhabi

304 - 326
صلاۃ کا اہتمام کیا جاتا ہے ان میں بہت زیادہ آگ روشن کی جاتی ہے اور رات بھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے،اس میں فسق و فجور،اختلاط مرد و زن اور دیگر بہت ساری ناشائستہ و نازیبا حرکتیں ہوتی ہیں جو محتاج بیان نہیں۔اور عبادت گزار عوام کے اس میں بڑے پختہ عقائد وابستہ ہوتے ہیں،شیطان لعین ان کی خاطر ان ساری چیزوں کو آراستہ کرتا ہے اور انہیں عین شعائر اسلام بنا کر پیش کرتا ہے۔‘‘[1] امام حافظ ابن رجب رحمہ اللہ ایک بڑی عمدہ گفتگو کے بعد فرماتے ہیں : ’’شام کے کچھ تابعین جیسے خالد بن معدان،مکحول،لقمان بن عامر وغیرہم شعبان کی پندرہویں شب کی تعظیم کرتے تھے اور اس میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے تھے،اس رات کی فضیلت لوگوں نے انہی سے لی ہے۔اور بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں کو اس سلسلہ میں کچھ اسرائیلی آثار (یعنی یہودیوں اور نصرانیوں کی بیان کی ہوئی جھوٹی روایتیں اور من گھڑت قصے کہانیاں ) مل گئے تھے اور جب یہ چیز ان کے ذریعہ سے مختلف شہروں میں مشہور ہوئی تو لوگ اختلاف کرنے لگے،بعض لوگ ان کی بات مان کر ان کے موافق ہوگئے،ان میں بصرہ کے عابدوں وغیرہ کی بھی ایک جماعت تھی،جب کہ اکثر علمائے حجاز نے اس کا انکار کیا،ان میں سے حضرت عطاء رحمہ اللہ،ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ وغیرہما ہیں اور یہی بات عبد الرحمن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ نے فقہائے اہل مدینہ سے بھی نقل فرمائی ہے،امام مالک رحمہ اللہ کے اصحاب وغیرہم کا بھی یہی کہنا ہے،ان سبھوں نے ان ساری چیزوں کو بدعت قرار دیا ہے۔ اس رات میں عبادت کے طریقہ کے بارے میں علمائے اہل شام کی مندرجہ ذیل دو رائیں ہیں : پہلی رائے:....مسجد میں اکٹھا ہوکر اس رات میں عبادت کرنا مستحب ہے،خالد ابن معدان اور لقمان بن عامر اور دوسرے لوگ اس رات میں اچھے کپڑے زیب تن کرتے،
Flag Counter