’’جہاں تک نماز کی بات ہے تو ماہِ رجب میں کوئی مخصوص نماز ثابت نہیں ہے اور ماہِ رجب کے پہلے جمعہ کی شب میں پڑھی جانے والی نماز ’’صلاۃ الرغائب‘‘ کے سلسلہ میں جتنی بھی روایتیں مروی ہیں جھوٹ،باطل اور غیر صحیح ہیں اور یہ نماز جمہور اہلِ علم (علمائے کرام) کے نزدیک بدعت ہے۔‘‘[1]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ماہِ رجب یا اس کے روزوں یا اس ماہ کے کسی مخصوص دن کے روزہ اور اس کی کسی مخصوص رات کی عبادت کی فضیلت کے سلسلہ میں کوئی بھی صحیح اور قابل حجت حدیث وارد نہیں ہے۔‘‘[2]
پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو حدیثیں رجب کی فضیلت،یا اس کے روزوں،یا اس کے کسی بھی خاص دن کے روزوں کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں وہ دو طرح کی ہیں،ضعیف اور موضوع۔[3]
پھر حدیثِ صلاۃ الرغائب کا تذکرہ فرمایا ہے،جس میں یہ ہے کہ رجب کی پہلی جمعرات کو روزہ رکھے،پھر جمعہ کی شب مغرب اور عشاء کے درمیان بارہ رکعتیں پڑھے،ہر رکعت میں ایک بار سورۂ فاتحہ،تین بار ﴿اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ﴾ اور بارہ بار ﴿قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾ کی تلاوت کرے اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرے۔اس کے بعد حافظ ابن حجر نے تسبیح،استغفار،سجدہ اور درود نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔
پھر یہ وضاحت فرمائی ہے کہ یہ حدیث موضوع اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے،نیز بتایا ہے کہ اس میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ جو یہ نماز پڑھے اس پر ضروری ہے کہ اس دن کا روزہ بھی رکھے،جبکہ بسا اوقات دن میں کافی سخت گرمی پڑتی ہے اور ظاہر ہے کہ جب انسان
|