Maktaba Wahhabi

282 - 326
پہنچتی،اور لوگ جو انبیاء و صالحین کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں،مثلاً کہتے ہیں : ’’اے اللہ! میں تجھ سے تیرے نبی،یا تیرے انبیاء یا تیرے فرشتوں،یا تیرے نیک بندوں یا شیخ فلاں کے حق یا اس کی حرمت کے وسیلہ سے،یا لوح و قلم کے واسطے سے تجھ سے دعا کرتا ہوں ‘‘ وغیرہ،تو یہ ساری باتیں بدترین قسم کی بدعات ہیں۔سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں صرف اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات،اعمال صالحہ (جیسا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں اہل غار کے واقعہ میں وارد ہے) اور زندہ حاضر و متقی کی دعا کا وسیلہ جائز ہے۔ تیسری قسم:....کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ قبروں کے پاس دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں،یا مسجد میں دعا کرنے کی بہ نسبت وہاں دعا کرنا زیادہ افضل ہے،اور پھر اس غرض سے وہ قبروں کا قصد کرے۔تو یہ ساری حرکتیں متفقہ طور پر حرام اور ناجائز ہیں،اس سلسلہ میں ائمہ اسلام میں کسی کا کوئی اختلاف ہمیں معلوم نہیں،چنانچہ یہ ایک ایسا عمل ہے جسے نہ تو اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہے نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے،اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین اور ائمہ اسلام میں سے کسی نے انجام دیا ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عہد رسالت کے بعد کئی مرتبہ قحط سالی سے دوچار ہوئے،مصائب کے شکار ہوئے لیکن کبھی بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی پاس نہ آئے،بلکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس (عم رسول) رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے اور ان سے طلب باراں کے لیے دعا کروائی۔سلف صالحین قبروں کے پاس دعا کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے،چنانچہ حضرت علی بن الحسین رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس موجود ایک شگاف میں داخل ہوکر دعا کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیا میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جسے میں نے اپنے والد،اپنے دادا کے واسطے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تَجْعَلُوْا قَبْرِيْ عِیْدًا،وَلَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا،وَصلُّوْا،عَلَيَّ وَسَلِّمُوْا حَیْثُمَا کُنْتُمْ،فَسَیَبْلُغُنِیْ سَلَامُکُمْ
Flag Counter