Maktaba Wahhabi

281 - 326
الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا ﴾ (الاسراء:۵۶تا۵۷) ’’آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن وہ کسی تکلیف کو نہ تو تم سے دور کرسکتے ہیں اور نہ ہی بدل سکتے ہیں،جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہوجائے،وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں۔‘‘ چنانچہ کسی بھی نبی،یا ولی،یا صالح (نیکوکار) کو پکارنے والا اور ان میں الوہیت کا تصور رکھنے والا،اس آیتِ کریمہ کے حکم میں شامل ہے،کیونکہ یہ آیت کریمہ ہر اس شخص کو عام ہے جو اللہ کے سوا کسی کو پکارے،حالانکہ وہ پکاری جانے والی ذات خود اللہ کے وسیلہ کی متلاشی،اس کی رحمت سے پُر امید،اور اس کے عذاب سے خائف ہو،لہٰذا جس کسی نے کسی مردہ،یا غائب،نبی یا صالح (نیکوکار) کو استغاثہ (فریاد رسی) یا کسی اور لفظ سے پکارا تو اُس نے اس شرک کا ارتکاب کیا جسے اللہ تعالیٰ توبہ کے بغیر نہیں معاف کرسکتا۔جس کسی نے کسی نبی،یا صالح کی ذات میں غلو کیا یا اس میں کسی بھی قسم کی عبادت کا تصور کیا،مثلاً یہ کہا کہ ’’اے میرے فلاں سردار میری مدد کیجئے‘‘ یا ’’میری اعانت کیجئے‘‘ یا ’’میری فریاد سنیے‘‘ یا ’’مجھے روزی دیجیے‘‘ یا ’’میں آپ کی حفاظت میں ہوں ‘‘ وغیرہ،تو یہ ساری باتیں شرک باللہ اور ضلالت و گمراہی ہیں،اس کے مرتکب سے توبہ کروائی جائے گی،اگر توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اسی لیے بھیجے ہیں اور کتابیں اسی لیے اتاری ہیں کہ دنیا میں صرف اسی کی عبادت کی جائے،اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کیا جائے۔ دوسری قسم:....میت کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا،یہ دین اسلام میں ایک نو ایجاد بدعت ہے،البتہ یہ قسم پہلی قسم کی طرح نہیں ہے،کیونکہ یہ شرک اکبر تک نہیں
Flag Counter