ہمارے کفر کا زمانہ قریب ہی گزرا تھا،فتح مکہ کے روز ہی مسلمان ہوئے تھے،فرماتے ہیں کہ ہمارا گزر ایک درخت سے ہوا تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جس طرح مشرکین کا ذات انواط ہے اسی طرح ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئے،(ذات انواط،دراصل ایک بیری کا درخت تھا جس کے پاس مشرکین عبادت کی خاطر بیٹھتے تھے،اور حصول تبرک کے لیے اپنے ہتھیار وغیرہ بھی اس کے ساتھ لٹکایا کرتے تھے) تو جب ہم نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ اکبر! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم نے وہی بات کہی ہے جو بنو اسرائیل نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ:
﴿وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَهُمْ قَالُوا يَامُوسَى اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾ (الاعراف: ۱۳۸)
’’ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی معبود مقرر فرما دیجئے جیسے ان کے یہ معبود ہیں،موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: واقعی تم لوگ بڑے نادان ہو۔‘‘
تم لوگ ضرور بالضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے راستے کی پیروی کرو گے۔[1]
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بنو اسرائیل کے اس بدترین مطالبہ کا اصل محرک کفار کی مشابہت ہی تھی،اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اللہ تعالیٰ کے علاوہ سے تبرک حاصل کرنے کی خاطر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک درخت مقرر فرمانے کے مطالبہ کا سبب بھی کفار کی مشابہت ہی تھی،اور یہی حال آج مسلمانوں کی اکثریت کا بھی ہے کہ انہوں نے
|