’’اور یہی میری صراط مستقیم ہے،سو اسی پر چلو،اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تمہیں اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی،اس بات کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے،تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔‘‘
چنانچہ یہی صراط مستقیم اللہ کی وہ راہ ہے جس کی جانب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بلایا ہے،اور وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے،اور جن مختلف راہوں سے بچنے کی تاکید کی ہے،یہ صراط مستقیم سے منحرف اہل اختلاف و افتراق کی راہیں ہیں جو کہ اہل بدعت ہیں۔[1]
اس طرح یہ آیت کریمہ اہل بدعت کی جملہ راہوں سے ممانعت کو شامل ہے۔[2]
۳۔ ارشاد الٰہی ہے:
﴿ وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ﴾ (النحل:۹)
’’اور اللہ تعالیٰ پر سیدھی راہ کا بتادینا ہے،اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہِ راست پر لگا دیتا۔‘‘
﴿قَصْدُ السَّبِيلِ ﴾ (سیدھی راہ) سے مراد حق کی راہ ہے اور بقیہ راہیں حق سے منحرف بدعت و ضلالت کی راہیں ہیں۔[3]
۴۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴾ (الانعام:۱۵۹)
’’بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور گروہ گروہ بن گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے کوئی تعلق نہیں،بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ ہے،پھر وہ ان کو ان کا کیا ہوا بتلا دے گا۔‘‘
یہ اس امت کے خواہش پرست،گمراہ اور بدعتی لوگ ہیں۔[4]
|