’’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ‘‘ (جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے) ظاہری اعمال کا میزان ہے،اس طرح یہ دونوں حدیثیں دین اسلام کے اصول و فروع،ظاہر و باطن،اور اقوال و افعال کو سمیٹنے والی انتہائی عظیم الشان حدیثیں ہیں۔[1]
امام نووی رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر بڑی عمدہ گفتگو کی ہے،فرماتے ہیں :
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌ‘‘ (جس کسی نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں،تو وہ مردود ہے) اور دوسری روایت ’’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ‘‘ (جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے) اہل عرب کے نزدیک ان دونوں روایتوں میں ’’رد‘‘ ’’مرود‘‘ کے معنی میں ہے،جس کے معنی باطل اور غیر مقبول کے ہیں۔‘‘
یہ حدیث اسلام کے قواعد میں سے ایک عظیم الشان قاعدہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع کلمات میں سے ہے،نیز دین اسلام میں ایجاد کردہ تمام بدعات و مخترعات کی تردید میں دو ٹوک ہے اور دوسری روایت میں بایں معنی تھوڑی سی زیادتی ہے کہ بسا اوقات کسی سابقہ ایجاد کردہ بدعت پر عمل کرنے والے بعض معاندین پہلی روایت کے پیش نظر اگر یہ حجت قائم کریں کہ ہم نے تو کوئی بدعت ایجاد نہیں کی،تو جواباً اس پر دوسری روایت سے حجت قائم کی جائے جس میں جملہ بدعات کو مردود اور ناقابل قبول قرار دیے جانے کی تصریح ہے،خواہ خود اس پر عمل کرنے والے شخص نے اسے ایجاد کیا ہو،یا اس سے پہلے کسی اور نے ایجاد کیا ہو۔[2]
|