’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
چنانچہ صرف وہی اعمال عند اللہ شرف قبولیت سے سرفراز ہوسکتے ہیں جو خالص اللہ کی رضا جوئی کے لیے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق انجام دیے گئے ہوں،جو عمل اخلاص اور اتباع سنت رسول سے،یا ان دونوں میں سے کسی ایک سے عاری ہو،ایسا عمل مردود اور ناقابل قبول ہے،نیز اللہ عزوجل کے حسب ذیل فرمان میں داخل ہے:
﴿وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا﴾ (الفرقان:۲۳)
’’انہوں نے جو کچھ بھی اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر پراگندہ ذروں کی طرح کردیا۔‘‘
اور جس کا عمل اخلاص اور اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو سے بہرہ مند ہو،وہ مندرجہ ذیل بشارتوں کا مستحق ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ ﴾ (النساء:۱۲۵)
’’اور بہ حیثیت دین اس شخص سے بہتر کون ہوسکتا ہے جس نے خود کو اللہ کے تابع کردیا اور وہ نیکوکار بھی ہو۔‘‘
نیز ارشاد ہے:
﴿بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ (البقرہ:۱۱۲)
’’سنو! جو بھی اپنے آپ کو اخلاص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے،اور وہ نیکوکار (متبع سنت) بھی ہو،تو بلاشبہ اسے اس کا رب بھر پور بدلہ دے گا،اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا نہ ہی آرزدگی و اداسی۔‘‘
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ’’إِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ....الخ‘‘ (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے....) باطنی اعمال کی کسوٹی ہے،جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث
|