مقام بڑھ جائے اور اسے بیان کرکے لوگ اس کی مدح و ستائش کریں،یہ ریاکاری کی باریک اقسام میں سے ہے۔
۱۰: ریاکاری کی باریکیوں اور اسرار میں سے یہ بھی ہے کہ عمل کرنے والا اپنی نیکی چھپائے،اس طور پر کہ وہ یہ نہ چاہے کہ لوگوں کو اس کی اطاعت (نیکیوں ) کی اطلاع ہو اور نہ ہی اس کے ظاہر ہونے سے اسے خوشی ہو،لیکن اس کے باوجود جب وہ لوگوں کو دیکھے تو اس کی خواہش یہ ہو کہ لوگ اس سے سلام کرنے میں پہل کریں،اس سے خندہ پیشانی اور احترام سے ملیں،اس کی تعریف و توصیف کریں،گرم جوشی سے اس کی ضرورت پوری کریں اور خرید و فروخت میں اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں اور اگر یہ سب کچھ نہ حاصل ہو تو اپنے دل میں رنج و تکلیف محسوس کرے،گویا وہ اپنی خفیہ نیکیوں پر عزت و احترام کا طلب گار اور خواہش مند ہے۔
۱۱: ریا کی باریکیوں میں سے یہ بھی ہے کہ انسان اخلاص کو اپنے مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنائے:....شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ بیان کیا جاتا ہے کہ ابوحامد غزالی کو معلوم ہوا کہ جو شخص چالیس روز تک اللہ کے لیے اخلاص اپنائے گا تو ’’ حکمت ‘‘ اس کے دل سے نکل کر اس کی زبان پر جاری ہوجائے گی۔(ابو حامد غزالی) فرماتے ہیں کہ میں نے بھی چالیس روز تک اخلاص اپنایا تو کچھ بھی نہ ہوا،میں نے ایک عارف باللہ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے حکمت کے لیے اخلاص اپنایا تھا،اللہ کے لیے نہیں (اس لیے کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔) ‘‘[1]
یہ اس طرح کہ انسان کا مقصد کبھی حکمت و بردباری یا اپنے حق میں لوگوں کی تعظیم و تعریف کا حصول یا اس کے علاوہ دیگر مقاصد ہوا کرتے ہیں۔اور یہ عمل اللہ کے لیے اخلاص
|