کون ’’اچھا عمل ‘‘ کرتا ہے اور وہ غالب بخشنے والا ہے۔‘‘
’’ اچھا عمل ‘‘ یعنی سب سے خالص اور درست ترین عمل،لوگوں نے عرض کیا: اے ابوعلی! سب سے خالص اور درست عمل کیا ہے؟ تو فرمایا: ’’ عمل جب خالص اللہ کے لیے ہو لیکن درست نہ ہو تو قبول نہیں ہوتا،اور اگر درست ہو خالص نہ ہو تو بھی قبول نہیں ہوتا،یہاں تک کہ (بیک وقت) خالص اور درست ہو،اور خالص کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمل اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو،اور درست کا مطلب یہ ہے کہ سنت نبوی کے مطابق ہو۔[1]اور پھر سورۂ کہف کی مذکورہ آیت کی تلاوت فرمائی۔
اخلاص عبادات کی روح ہے،اس کے بغیر ساری عبادتیں بے جان ہیں،لیکن افسوس کہ اسلامی معاشرہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اخلاص ختم ہوگیا ہے نمازی کی نماز میں اخلاص نہیں،روزہ دار کے روزے میں اخلاص نہیں،صدقہ کرنے والے کے صدقہ میں اخلاص نہیں،ایک مدرس کی تدریس میں اخلاص نہیں،ایک طالب علم کی طلب علم میں اخلاص نہیں،ایک ملازم کی ملازمت میں اخلاص نہیں،ایک چوکیدار کی چوکیداری میں اخلاص نہیں،غرض کوئی بھی شخص اپنی ذمہ داری اخلاص کے ساتھ نہیں نبھاتا،الا من رحم ربی۔تمام اعمال میں اخلاص کی جگہ ریا و نمود،دکھاوا،شہرت،نام طلبی اور دنیوی مفاد نے لے لی ہے۔درحقیقت یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے،اور جب صورتِ حال ایسی ہے تو مخلصین کے لیے کیے گئے وعدۂ الٰہی کے مستحق ریاکار،شہرت پسند،دنیا پرست لوگ کیونکر ہوسکتے ہیں ؟
زیر نظر کتاب میں سعودی عرب کے معروف صاحب علم ڈاکٹر سعید بن علی قحطانی حفظہ اللہ نے اس موضوع پر کتاب و سنت کی روشنی میں مدلل گفتگو کی ہے اور اس کے تمام گوشوں کا مختصراً احاطہ کیا ہے،فجزاہ اللّٰہ خیر الجزاء۔
راقم کی یہ چھٹی طالب علمانہ کاوش ہے جو اللہ کی توفیق سے زیور طبع سے آراستہ ہورہی ہے،میں اپنے تمام اسلامی بھائیوں،بالخصوص طالبان علوم نبویہ کے سامنے اس کتاب کا اُردو ترجمہ
|