۱۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں،لیکن درحقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں۔
۲۔ وہ اللہ تعالیٰ اور مومنوں کو دھوکا دیتے ہیں۔
۳۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے۔
۴۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔
۵۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اور لوگوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ایمان لائیں،جیسا بیوقوف ایمان لائے ہیں۔
۶۔ جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں،ہم تو ان سے صرف مذاق کرتے ہیں۔
۷۔ یہ لوگ گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خریدتے ہیں،پس نہ تو ان کی تجارت نے انھیں فائدہ پہنچایا اور نہ ہی یہ ہدایت والے ہوئے۔
دوم: ....اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ (204) وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (205) وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴾ [البقرۃ:۲۰۴۔۲۰۶]
’’ بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کردیتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ بناتا ہے،حالانکہ وہ زبردست جھگڑالو ہے۔جب وہ لوٹ کر واپس جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے،کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش
|