Maktaba Wahhabi

80 - 141
’’ اپنے آپ کو گناہ کو حقیر جاننے سے بچاؤ، بے شک صغیرہ گناہوں کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے ، جو ایک وادی میں اترے، ایک لکڑ ی یہ لے کر آیا , ایک لکڑی دوسرا لے کر آیا ، یہاں تک کہ اتنی لکڑیاں جمع ہوگئی جس سے وہ اپنا کھانا تیار کرسکیں ۔ اور گناہ کو حقیر جاننے والے کا جب بھی محاسبہ ہوگا، وہ اسے ہلاک کردیں گے۔‘‘ کتنے ہی گناہ ایسے ہیں جنہیں لوگ صغیرہ گمان کرتے ہیں ، مگر عند اللہ وہ کبیرہ ہوتے ہیں ؛ سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری آنکھوں میں بال کے برابربھی نہیں ، مگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں انہیں ہلاک کرنے والے کبیرہ گناہوں میں شمار کرتے تھے۔‘‘ [مسند احمد ۳/۳] ٭ ایسے ہی گناہ کے بعد اس کا اعلان کرنا اور لوگوں کو بتاناکہ اس نے یہ گناہ کیا ہے، اللہ کی رحمت کو چیلنج اور مغفرت سے محرومی کا سبب ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ گناہ میں بے باکی کی وجہ سے لوگ اس گناہ کو معمولی سمجھنے لگتے ہیں ، جس کی وجہ سے عوام میں فحاشی پھیل جاتی ہے۔اللہ جل شانہ فرماتے ہیں : ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِیْ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ﴾ (النور:۱۹) ’’ بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مومنین میں فحاشی پھیل جائے ، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘ ابراہیم بن ادہم کا قصہ: ابراہیم بن ادہم کے پاس ایک آدمی آیا، اور اس نے کہا: اے ابو اسحاق! (یہ ا براہیم بن ادہم کی کنیت تھی) میں نے اپنے نفس پر بہت زیادہ ظلم کیا ہے،اور بہت گناہ کیے ہیں ، مجھے ایسی نصیحت کرو جس سے میرا نفس ان گناہوں سے بازآجائے؛
Flag Counter