۷۔ ابراء الذمہ: یہ بندوں کے حقوق سے متعلق ہے، یعنی اگر کسی کا حق مارا ہے ، یا کسی پر ظلم کیا ہے تو اسے معاف کروایا جائے ، یا وہ حق ادا کیا جائے۔
بعض علماء نے توبہ کے لیے ان کے علاوہ اور کچھ شرطیں ذکر کی ہیں ، ان میں :
٭ یہ کہ توبہ قبول ہونے کے زمانہ میں کی جائے، یعنی گناہ سرزد ہونے کے فوراً بعد ہی توبہ کی جائے، اور اس میں تاخیر جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ حَتَّی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْآنَ﴾ (النساء:۱۸)
’’اوران لوگوں کی کوئی توبہ نہیں ہے جو گناہ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ کسی کی موت کا وقت جب قریب ہوجائے تو وہ کہتا ہے اب میں توبہ کرتا ہوں۔‘‘
٭ توبہ کرنے والا گناہ کی قباحت اور توبہ کی لذت کو صحیح طرح سے سمجھے تاکہ آئندہ کے لیے گناہ کا احتمال نہ رہے ، اور گزشتہ گناہ سے مسرور نہ ہو۔
٭ توبہ کرنے میں جلدی کرے ، بلاوجہ اس میں تاخیر نہ کرے۔
٭ جو لوگ برائی کے کام میں اس کا ساتھ دینے والے ہیں ، اگر ان سے توبہ نہیں کرواسکتا تو ان کا ساتھ چھوڑ دے ، کہیں ان کی ہم نشینی دوبارہ گناہوں پر نہ لگادے۔
٭ اپنے پاس موجود حرام کام میں معاون اشیاء کو تلف کردے۔
٭ صالحین کی صحبت اختیار کرے جو نیکی کے کاموں میں اس کے مددگار ثابت ہوں ۔
٭ گناہ کو کبھی بھی حقیر نہ جانے ،کیوں کہ اگر صغیرہ گناہ ہی زیادہ ہوگئے تو انسان کو ہلاک کرکے رکھ دیتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِیَّاکُمْ وَمُحقِّرَاتِ الذُّنُوْبِ، فَإِنَّمَا مَثَلُ مُحَقِّرَاتِ الذُّنُوْبِ کَمَثَلِ قُوْمٍ نَزَلُوْا بَطْنَ وَادٍ، فَجَآئَ ذَا بِعَوْدٍ، وَجَائَ ذَا بَعْودٍ، حَتَّی حَمَلُوْا مَا أَنْضَجُوْا بِہِ خُبْزَہُمْ، وَإِنَّ مُحَقَّرَاتِ الذَّنُوْبِ، مَتَی یُؤْخَذُ بِہَا صَاحِبُہَا ، تَہْلُکُہُ۔)) [امام احمد، صحیح الجامع ۲۶۸۶]
|