Maktaba Wahhabi

100 - 141
بخش دیتا ہے (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ واقع ہو اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار ہو جاؤ، پھر تم کو مدد نہیں ملے گی۔‘‘ اس سے پہلے کہ ناگہاں عذاب آ جائے اورکسی کو خبر بھی نہ ہو؛ اوراس وقت کوئی جی کہنے لگے کہ : ہائے! اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے اللہ کے حق میں کیا ، اور پھر اس وقت کا افسوس اس کے کچھ بھی کام نہ آئے گا ؛ انسان کوچاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی اسماء وصفات اور اس کی وسعت ِ رحمت کی معرفت حاصل کرے جس میں اس کی دنیا اورآخرت کی کامیابی کے راز مضمر ہیں ۔ ۹۔ تقدیر کی حجت: بعض لوگ گناہ کے واقع ہوجانے پر یہ کہہ کرخود کوجھوٹی تسلی دیتے ہیں کہ اس کے نصیب میں ایسے لکھا ہوا تھا، نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ جب اللہ چاہے گا پڑھ لیں گے۔ توبہ کیوں نہیں کرتے ؟جب اللہ چاہے گا توتوبہ بھی کرلیں گے۔ اس طرح کے یہ وہ سوال جواب ہیں جو گناہ پر مسئلہ تقدیر سے احتجاج کرنے والے بھائیوں کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔ حقیقت میں ایسا کہنا اوریہ تصور رکھنا بذاتِ خود ایک غلطی ہے؛ جس کی اصلاح اور درستگی کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ تقدیر پر ایمان انسان کو اس چیز سے نہیں روکتا کہ وہ واجبات ادا کرے ،یا محرمات کا ارتکاب کرنے پر مجبور بھی نہیں کرتا۔ان معاملات میں تقدیر سے احتجاج کرنا خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ ہے۔ کیوں کہ ایسا کرنے والے کے پاس اپنے دعویٰ کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس پراتمام حجت ا ور اصلاح کا موقع نہ دیتے تو آخرت سے پہلے ہی اس کے گناہوں پر اس دنیا میں اسے عذاب دیاجاتا۔ اور دنیا اورآخرت میں اسے ایسا کرنے پر کوئی ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ نہ ہوتی بلکہ معاملہ اتنی حد تک تو سب کے سامنے ہے کہ دنیا میں مجرم کو اس خطہ ارضی کے قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے جہاں وہ قیام پذیر ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا توتقدیر کا احتجاج کرتے ہوئے جو چاہتا قتل کرتا ، اور جو
Flag Counter