اسے صاف کردیا جاتا ہے ، اور اگر اس نے دوبارہ گناہ کا ارتکاب کیا ، تو سیاہی میں اور زیادتی کردی جاتی ہے ، یہی وہ زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے:
﴿کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾ (المطففین:۱۴، احمد، ترمذي]
’’ یوں ہی نہیں ، بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے۔‘‘
۲۔ غفلت :
یعنی ایسے گناہوں سے غفلت جو اس کے تصور میں گناہ ہی نہیں ۔سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری آنکھوں میں بال کے برابر نہیں ، مگر ہم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں انہیں ہلاک کرنے والے کبیرہ گناہوں میں شمار کرتے تھے۔‘‘ [مسند احمد ۳/۳]
بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ایسے گناہوں سے توبہ کر لیتے ہیں جنہیں وہ جانتے ہیں ، یا گناہ سمجھتے ہیں ، مگر دو سرے کئی گناہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ایسے ہی باقی رہتے ہیں ۔ اور ایسے گناہوں سے اس وقت تک نجات ممکن نہیں جب تک انسان عام توبہ نہ کر لے۔کیوں کہ ایسے گناہ بالخصوص ہمارے اس دورِ جہالت میں جنہیں ہم جانتے ہیں ،وہ بہت کم ہیں ، اور جنہیں ہم نہیں جانتے ،یا گناہ سمجھتے ہی نہیں ، اوروہ عند اللہ گناہ کے کام ہیں وہ بہت زیادہ ہیں ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَلَا أُخَبِرُکُمْ بِمَا ھُوَ أَخْوَفَ عَلَیْکُمْ عِنْدِيْ مَنَ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ ؟ قَالَ: قُلْنَا بَلیٰ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! قَالَ اَلشِّرْکُ الْخَفِيُّ…۔))[ابن ماجہ، کتاب الزہد]
’’ کیامیں تمہیں اس چیز کے متعلق نہ بتاؤں جو میرے نزدیک تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ خوفناک ہے؟ کہتے ہیں : ہم نے کہا: یارسول اللہ ! ضرور بتائیں۔ فرمایا : ’’ وہ شرک خفی ہے…‘‘
|