الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ کَرَّۃً فَاَکُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ (الزمر:۵۴ تا ۵۸)
’’ اوراپنے پروردگار کی طرف رجوع کرلو اور اس کے سامنے سرنگوں ہو جاؤ قبل اس کے کہ تم کو عذاب آلے، پھر تمہاری کوئی مدد نہ کی جائے گی اور تمہارے رب کی طرف سے جو بہترین وحی نازل کی گئی ہے اس کی اتباع کرو قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب نازل ہوجائے جبکہ تمہیں اس کی کوئی اطلاع بھی نہ ہو اور (ایسا نہ ہو کہ کوئی ) شخص یہ کہے کہ ہائے افسوس! میں نے اللہ کے حق میں بڑی کوتاہی برتی ہے بلکہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں ہی رہا۔ یا کہے کہ اگر اللہ مجھے ہدایت کرتا تو میں بھی پارسا لوگوں میں ہوتا یا عذاب کو دیکھ کر کہے : کاش! کسی طرح میرا لوٹ جانا ہوتا تو میں بھی نیکو کاروں میں ہوجاتا۔‘‘
ہوشیار رہیے !شیطان کے جھانسے ، دنیا کے فتنوں ،نفس کی خواہشات اور لالچ کے پھندے میں نہ پھنس جانا اور یہ نہ سمجھ کر لینا کہ کوئی بات نہیں ۔ میں موت سے پہلے توبہ کرلوں گا۔
موت تو اچانک ہی آجاتی ہے اور بکثرت لوگوں کے اس خیال کی وجہ سے وہ موت سے قبل توبہ کرنے سے محروم رہ گئے کیونکہ وہ خود تو موت کے لیے تیار نہ تھے بلکہ نفسانی خواہشات کی تسکین میں محو تھے، طویل و عریض تمنائیں لیے بیٹھے تھے کہ اچانک انہیں موت نے آدبوچا۔ بعض لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اللہ کے حق یا حقوق العباد میں ان سے کوتاہی ہوئی مگر موت سے پہلے پہلے انہیں توبۂ نصوح کی توفیق مل گئی اور وہ صالحین و صالحات میں سے ہوگئے، حتی کہ ان کے حالات کا تذکرہ غافل دلوں میں بیداری پیدا کرتا ہے اور صراط مستقیم پر چلنے والے اور منہج صحیح و قویم پر رواں ہونے والے ان کی اقتدا کرتے ہیں ۔
توبہ اوراستغفار کی فضیلت :
توبہ واستغفار کا مقام اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت ہی بلند ہے۔ صالحین اور اولوالعزم لوگوں کی یہی روش رہی ہے کہ اگر ان سے کوئی خطا ہوجائے تو فوراً توبہ کرتے تھے۔اللہ
|