اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندے نے گناہ کیا، اور وہ جانتاہے کہ میرا رب جوگناہ کو معاف کرتا ہے ،اور اس پر پکڑتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : جو چاہو سو کرو میں نے تمہیں معاف کیا۔‘‘ [مسلم ح ۲۷۵۸]
اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک انسان سے گناہ صادر ہوتا رہے تو وہ اس سے توبہ کرتا رہے ،ایسا نہ ہوکہ گناہ واقع ہوتے رہیں اور وہ توبہ میں تاخیر کرتا رہے ،اور دل پر اتنا زنگ لگ جائے کہ توبہ کی توفیق ہی نصیب نہ ہو۔
۴۔ خوف سے توبہ نہ کرنا:
ایسے بھی لوگ ہیں جن کے جی میں توبہ کرنے کاارادہ ہوتا ہے ، اوروہ چاہتے ہیں کہ وہ اس توبہ کے بعد راہ مستقیم پر ثابت قدم رہیں مگر وہ بعض لوگوں کی باتیں بنانے اورنکتہ چینی کرنے سے ڈرتے ہیں ۔حقیقت میں ایسا ہوتا بھی ہے کہ کل کا گنہگار جب توبہ کرلیتا ہے، اور راہ مستقیم پر چلتا ہے تو اس کے سابقہ ہم نشین اس کامذاق اڑاتے اوراس پر پھبتیاں کستے ہیں ۔ سویہی خوف بعض لوگوں کو توبہ سے روک رکھتا ہے لیکن اگر یہ انسان اسی چیز کو ایک دوسرے پہلو سے دیکھے کہ وہ اللہ کے خوف کو تمام لوگوں کے خوف پر ترجیح دے رہا ہے ، اور اس کی رضا کے لیے سب کی باتیں اورنشتر برداشت کرتا اور ان تمام باتوں پر صبر بھی فقط اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے تو ایسے انسان کو نہ صرف توبہ کرنے کا اجر ملتا ہے ، بلکہ اللہ کے ہاں اس کا مقام بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے ،جولوگوں کی باتوں پر صبرکرتا ، اور رب کی رضا کی تلاش میں رہتاہے۔ اوراس میدان میں جتنا زیادہ صبر اورحوصلہ رکھے گا اللہ کے ہاں سے اس کے لیے اتنا ہی اجر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْْرِ حِسَابٍ﴾ ( الزمر:۱۰)
|